Tuesday, 20 December 2016

کهانی - Story

کهانی



 جب میں چھوٹا بچہ تھا
سکول اپنے جب پڑھتا تھا
محنت بہت میں کرتا تھا
دوسرے بھی تب بچے تھے
پر کھیل کود و ہ کرتے تھے
بَڑا کُچھ پانے کی حسرت لیے
میں نہ و ہ سب کرتا تھا
محنت بہت میں کرتا تھا
چُھٹی آدھی جب ہوتی تھی
دُکان سکول کی جب کُھلتی تھی
میدان میں بچے نکلتے تھے
کھیل کُود سب کرتے تھے
ہَنسی مذاق وہ کرتے تھے
ہاں بہت زیادہ وہ کرتے تھے
میں اچھا دکھنا چا ہتا تھا
سُلجھا دِکھنا چاہتا تھا
میں نہ و ہ سب کرتاتھا
لکھنا ' پڑ ھنا ہی تھا سب میرا
محنت بہت میں کرتا تھا
سکول میں ہوتاجب امتحان کوئی
ہاں درجہ اوّل میں آتا تھا
سب کو پھر میں بھاتا تھا
سب کی آنکھ کا تارہ تھا
خود بھی شائید خُوش ہوتا تھا
معلوم نہیں اَبّ مُجھ کو
پایا کیا تھا اُن لَمحوںمیں
آج مگر یہ جانا ہے
سَب کُچھ ہی تو کُھویا تھا
وَقتی خوشیوں کی خاطر
کُھودیا وہ بچپن پیارا
خوشیوں کا سرمایہ سارا
پُھول تھا یہ یوں مُرجھایا
نہ رہاجب تتلی کا سایہ
گُزرا بچپن یُوں ہی سارا
اِک انجانی نا دانی میں
رکھا جب قدم جوانی میں
دُوہرائی غلطی پھر نا دانی میں
کی جو بیاں اوّل کہانی میں
سمجھ نہیں میں پایا ہوں
گُزار اتنے برس آیا ہوں
کَرتے ہیں جو محنت بچے
رہتے نہیں کیوں ہمیشہ اچھے
قسمت کا بھی اِک کھیل یہاں
جو بنتی بگڑتی  رہتی یہاں
ابّ تک کی یہ اپنی کہانی ہے
سمجھ سب کو نہیں  آنی ہے
دل ہی کو بس سنانی ہے
وہیں پر اِک کوئی رہتاہے
وہی اِک سب کی سنتا ہے
بھیگی پلکیں اَبّ چھپانی ہیں
خود کو یہ بات سمجھانی ہے
زندگی یہ عجب کہانی ہے
زندگی یہ عجب کہانی ہے
 - حارث

No comments:

Post a Comment